Add To collaction

23-Aug-2022 لیکھنی کی کہانی - ہفتہ واری مقابلہ (عورت)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عورت ( قیمتی ہار!!!!!!! اس کی حفاظت کیجیـٔے...)

سمیہ عامر خان


عورت۔۔۔

ع - عہد۔۔۔۔۔ محبت کا عہد نبھانے والی

و - وفا۔۔۔۔۔۔ محبت سے وفا کرنے والی

ر - ردا۔۔۔۔۔۔ محبت کی ردا میں ڈھنپی ہوئی

ت - تابعدار۔۔۔۔ محبت اور محبت سے جڑے ہر رشتوں کی تابعدار


لڑکی'۔۔۔۔ اس لفظ کے معنی نادان ، ناسمجھ جب اسی لفظ سے "ک" ہٹا دیا جاۓ تو لفظ "لڑی" بن جاتا ہے اور لڑی سے مراد ہار(necklace) یا مالا، جیسے کہ موتیوں کی مالا, ہیروں کا ہار نازک سا  اور کتنا نایاب اور قیمتی ہوتا ہے نا، لیکن جب ایک بار یہی موتیوں کی لڑی اور ہیروں سے بھرا ہار  ٹوٹ جاۓ تو لاکھ کوششں کرلو جُڑ نہیں پاتا اور اگر اسے جوڑ بھی دیا جاۓ تو پہلے جیسا دلکش و حسین نہیں ہوتا اسمیں کوئی نہ کوئی عیب رہ ہی جاتا ہے، کوئی نہ کوئی کمی باقی رہ ہی جاتی، پہلے جیسا بیش بہا قیمتی اور نایاب و پر رونق نہیں رہتا۔

یہ جو لڑکیاں ہوتی ہے نا موتیوں کی مالا ، ہیروں کا ہار جیسی ہوتی ہے۔ واقعی میں یہ لڑکیاں، جنہیں "صنف نازک" کہا جاتا ہے۔ یہ نا سمجھ اور نادان ہوتی ہے ، معصوم طبیعت ، کمزور دل،کمزور سخن ساز ہوتی ہے۔ اس کے لہجے میں گلاب سی تازگی جو کسی بھی انسان کو اپنا گرویدہ بنالیتی ہے ، انکھوں میں معصومیت ہوتی ہے جو کسی بھی آنکھ کو اپنی طرف مائل کرلیتی ہے ۔اس کی حرکت و چال میں متانت ہوتی ہے ، سنجیدگی ہوتی ہے،صبر و تحمل پسند ہوتی ہے.


واقعی میں یہ لڑکیاں موتیوں اور ہیروں جیسی ہوتی ہے۔ یہ موتیوں کی لڑیاں ایک بار بکھر جاۓ تو انہیں کتنا بھی پہلے جیسا خوبصورتی اور شادابی سے پرویا جاۓ نہیں پرو سکتے کیونکہ یہ پوری طرح سے ٹوٹ اور بکھر چکی ہوتی ہے۔ٹھیک اسی طرح جب کوئی لڑکی اپنا ضمیر ، اپنی خودی ، کھو چکے تو وہ اپنے آپ کو دوبارہ نہیں جوڑ سکتی۔ لڑکیوں کی خودی ، ان کا ضمیر ہی ان کی 'لڑ' ان کی موتیوں کی مالا ہوتا ہے، جب یہ مالا اور لڑی ناسمجھی ،نادانی اور خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا جاۓ تو وہ لڑکی ہیرا اور موتیوں کی لڑیوں جیسی نازک ، متانت ، صبر و تحمل والی نہیں رہ پاتی.


اسلام نے بھی عورتوں کو ایک خاص مقام دیا۔ اسلام نے عورتوں کو ذلت اور غلامی کی زندگی سے آزاد کرایا اور ظلم و استحصال سے نجات دلائی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کاخاتمہ کر دیا.جو عورتوں کے انسانی وقار کے منافی تھیں۔ نوزائیدہ بچی کو زندہ زمین میں دفن کئے جانے سے نجات ملی۔ یہ رسم نہ تھی بلکہ انسانیت کا قتل تھا۔ایک ایسا معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت اور رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔


وَاِذَا الۡمَوۡءٗدَةُ سُئِلَتۡ 

اور جب لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا۔

بِاَىِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ‌ۚ 

کہ وہ کس گناہ پرماری گئی

(سورہ التکویر ٨ ،٩)

اسلام نے بیٹی کو نہ صرف احترام و عزت کا مقام عطا کیابلکہ اسے وراثت کا حقدار بھی ٹھہرایا۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يُوْصِيْكُمُ اللّـٰهُ فِىٓ اَوْلَادِكُمْ ۖ لِلـذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَـهُنَّ ثُلُثَا مَا تَـرَكَ ۖ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَـهَا النِّصْفُ ۚ

اللہ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے، ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، پھر اگر دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی حصہ چھوڑے گئے مال میں سے ہے، اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے۔ (سورہ النساء آیت١١)


قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے سورہ شوریٰ آیت ٤٩ اور٥٠


لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۗ يَخْلُقُ مَا يَشَاۤءُ ۗ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَاۤءُ اِنَاثًا وَّيَهَبُ لِمَنْ يَّشَاۤءُ الذُّكُوْرَ (٤٩)


اَوْ يُزَوِّجُهُـمْ ذُكْـرَانًا وَّاِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَنْ يَّشَآءُ عَقِيْمًا ۚ اِنَّهٝ عَلِيْـمٌ قَدِيْرٌ(٥٠)

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ "آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالٰی ہی کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہے بیٹے دیتا ہے۔(سورہ شوریٰ٤٩)

یا لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے، بے شک وہ خبردار قدرت والا ہے۔(سورہ شوریٰ٥٠)


قرآن مجید کی اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں دونوں اللہ کی نعمت ہے۔ لڑکیوں کی پیدائش کو زمانہ جاہلیت میں معیوب سمجھا جاتا تھا۔ حتی کہ خود باپ اپنی بیٹی کو زندہ درگور کردیتا تھا۔مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لاۓ تو اس طرح کی تمام تر رسموں کا خاتمہ کردیا اور لوگوں کو بتایا کہ بیٹی رحمت کا ذریعہ ہے۔

حضرت ابوسعید خدرى رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ :


مَنْ كَانَتْ لَہٗ ثَلٰثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَلٰثُ أَخَواتٍ أَوْ بِنْتَانِ أَوْ أُخْتَانِ فَأحْسَنَ صُحْبَتَھنَّ وَاتَّقٰى اللّٰہ فِیھنَّ فَلَہٗالْجَنَّةُ.


"جس شخص كى تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور اس نے ان كے ساتھ حسنِ سلوک كیا اور ان كے بارے میں اللّٰہ سے ڈرتا رہا تو اس كو بدلے میں جنت ملے گى۔"(ترمذى ج۲ ص۱۳)

عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہم سے روایت ہے كہ آپ ﷺ نے فرمایا:


مَنْ كَانَتْ لَہٗ اُنْثٰى فَلَمْ يئِدْہا، وَلَمْ يفہنْہا وَلَمْ يوْثِرْ وَلَدَہٗ عَلَيہا - يعْنِى الذُّكُوْرَ - أَدْخَلَہٗ اللّٰہ الْحَنَّةَ


"جس كے پاس لڑكى ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ كرے، نہ اس كى توہین كرے اور نہ برتاؤ میں لڑكے كو اس پر ترجیح دے یعنى دونوں كے ساتھ یكساں سلوک روا ركھے تو اللّٰہ تعالٰی اس كو جنت میں داخل فرمائے گا۔"(مشكوٰة ص۴۲۳، مسند احمد ج۱ ص۲۲۳)


حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ سے مروى ہے كہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:


مَنْ عَالَ جَارِييتَينِ حَتّٰى تَبْلُغَا جَاءَ يوْمَ القِيامَةِ أَنَا وَہوْ كَہاتَينِ وَضَمَّ أَصَابِعَہٗ.


"جو شخص دو لڑكیوں كى ان كے بلوغ تک پرورش كرے تو قیامت كے دن، مَیں اور وہ ان دو انگلیوں كى طرح ہوں گے ، راوى كہتے ہیں كہ پھر آپ ﷺ نے اپنى انگلیوں كو ملادیا"(مسلم ج۲، ص۳۳)


لڑکیاں دوزخ سے نجات کا ذریعہ۔۔۔۔۔


حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے كہ آپ ﷺ  نے فرمایا:


مَنِ ابْتُلِى مِنْ ہذِہٖ الْبَنَاتِ بِشَىءٍ فَحَسَّنَ إلَيہنَّ كُنْ لَہٗ سِتْراً مِنَ النَّارِ.


"جس شخص پر اللّٰہ كى طرف سے بیٹیوں كى ذمہ دارى ڈالى گئى (اور اس نے اس ذمہ دارى كو نبھایا)اور ان كے ساتھ حسنِ سلوک كیا، تو یہ بیٹیاں اس كے لیے جہنم سے نجات كا ذریعہ بنیں گى-"


     اللہ رب العزت نے عورت کی تعظیم و تکریم کے لئے اسے مختلف روپ عطا کئے ہے. جس طرح موتی کے کئ روپ ہوتے ہے جیسے کبھی وہ کسی بادشاہ کے سر کے تاج کا روپ لیتی ہے ، تو کبھی رانی کے گلے کی مالا ہوتی ہے تو کبھی یہ نازک سی موتی تسبیح کے دانے ہوتی ہے اسی طرح  اللہ رب العزت نے عورت کی تعظیم و تکریم کے لئے انھیں مختلف روپ عطا کئے ہیں جیسے ماں، بیٹی، بہن اور بیوی۔ لڑکی ہر روپ میں انسان کے لئے نعمت و رحمت ہوتی ہے۔ اگرعورت ماں کے روپ میں ہو تو جنت اس کے قدموں میں رکھ دی جاتی ہے۔ جب یہ بیٹی اور بہن کے روپ میں ہو تو والد اور بھائی کو جنت میں لے جانے کی باعث ہوتی ہے اور آپﷺ کی رفاقت کا ذریعہ بنتی ہے۔حضرت ابوسعید خدرى رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : "جس شخص كى تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور اس نے ان كے ساتھ حسنِ سلوک كیا اور ان كے بارے میں اللّٰہ سے ڈرتا رہا تو اس كو بدلے میں جنت ملے گى۔"(ترمذى ج۲ ص۱۳)


اسی طرح اگر بیوی ہو تو شوہر کا آدھا ایمان مکمل کرتی ہے۔ "حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" جس شخص نے شادی کرلی اس نے آدھا ایمان پورا کرلیا لہذا اسے چاہئے کہ باقی آدھے میں اللہ تعالٰی کا تقوی اختیار کرے". {شعب الایمان 5001، مستدرک الحاکم 2/161}


غرض یہ کہ اسلام نے عورت کو ہر حیثیت سے چاہے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہو انتہائی تکریم و اعزاز سے نوازہ ہے۔اسی لئے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ لڑکیوں کی تربیت پر خاص توجہ دیں تاکہ لڑکیاں والدین کے لئے سرمایہ جنت ہو۔

        ان نازک کلیوں کی اس طرح تربیت کی جاۓ کہ ان کی راہوں میں کتنے ہی کانٹے ، کتنے ہی دکھ غم اور کتنا ہی مشکل مرحلہ آجاۓ یہ ان مشکل راہوں کا بآسانی مقابلہ کرسکے۔ ان کا ضمیر ان کی خودی اس طرح ہو جن سے ان کا حوصلہ بلند ہو ، جن سے ان کی صبح تازہ ہو ، جن سے ان کی شامیں رنگین ہو یعنی ان قیمتی ہار(صنف نازک)کی قیمتی لڑیوں (ضمیر اور خودی ) کی حفاظت کی جاۓ۔

اس صنف نازک کی تربیت اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتاۓ ہوۓ طریقے پر کی جاۓ تاکہ ان کی تربیت میں کمی نہ آۓ اور یہ موتیوں کی طرح چمکتی رہے ان کا رنگ کبھی پھیکا نہ پڑے ان کی شخصیت میں نکھار آۓ۔


نیک اولاد کسی بھی انسان کے لئے بیش بہا قیمتی سرمایہ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے گراں قدر عطیّہ  ہوتا ہے، اس لئے والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اسلام نے تربیت  اولاد کے سلسلے میں جو زرّیں اصول وضوابط پیش کئے ہیں ان اصولوں و ضوابط کے تحت اس صنف نازک کی تربیت کی جائے۔

والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاں اپنی بچیوں کی بہتر نشوونما کے لئے صحیح و مناسب دیکھ بھال پرورش کا سوچتے ہیں وہیں ان کو چاہئے کہ وہ بچیوں کی درست تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں ،کیونکہ اگر آج ان نازک سی کلیوں کو پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کردیا جائے گا تو یقیناً آج کی یہ معصوم کلیاں مستقبل میں خوبصورت شخصیت کی رونق کو دوبالا کرے گی اور والدین کے لیے جنت کی ضامن ہوں گی، لیکن اگر والدین  اپنے عیش و عشرت کی دنیا میں بدمست ہوکر ان کی تربیت کا معاملہ لااُبالی پن کی نذر کر دے تو وہ لڑکی ہیرا اور موتیوں کی لڑیوں جیسی نازک ، متانت ، صبر و تحمل والی نہیں رہ پاۓ گی۔ اگر والدین چاہتے ہیں كہ ایک باعظمت اور روشن مستقبل كا حامل معاشرہ كی بنیاد ركھیں تو پھر والدین کو  ان كی تعلیم و تربیت پر كافی توجہ دینا ہوگا۔

والدین کو لڑکیوں کی تربیت کے سلسلے میں آپﷺ کا طرز عمل کس طرح تھا یہ دیکھنا چاہیے آپﷺ کی چار صاحبزادیاں تھیں۔ حضرت زینبؓ،حضرت رقیہؓ، حضرت کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ۔ آپﷺ اپنی چاروں بیٹیوں سے بہت محبت کرتے تھے۔حضرت زینبؓ یہ آپﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔ آپﷺ ان کے متعلق اکثر فرماتے "یہ میری سب سے افضل بیٹی ہے۔" اسی طرح فاطمہؓ یہ آپﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں اور سب سے محبوب صاحبزادی تھیں۔

آج کے جدید دور کا مقابلہ ماضی سے کرلیا جاۓ تو واقعی حالات بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔آج لڑکیوں کو تعلیم دلانا نہایت ضروری ہے تاکہ معاشرے اور خاندان کی بہتر ترقی ہوسکے۔ یاد رکھے ایک عورت اسی وقت رحمت ثابت ہوگی جب اس کا دل عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم سے مزین ہو یعنی وہ فاطمی کردار کی حامل ہو۔ بیٹی کی تربیت اس طرح کی جاۓ کہ اس کی شخصیت میں فاطمی کردار و پیکر نظر آئے۔ ایک لڑکی ایک اچھی بیوی تبھی ثابت ہوسکتی ہے جب اس کا دل خدیجہؓ کی سیرت و کردار سے سرشار ہو۔ تنگ و تاریک رستوں میں روشنی کی لو کی مانند اسی وقت جگمگاتی ہے جب اس کی گود بچے کے لئے پہلا اسلامی مدرسہ ہو۔صنف نازک ایک بہن کی محبت کا سمندر اس وقت ثابت ہوسکتی ہے جب اس میں حضرت عائشہؓ کے جیسے جذبات موجود ہو جب آپؓ اپنے بھائی حضرت عبدالرحمن کی وفات کے بعد امت کے سامنے آئے۔


                       تیری حیات ہے کردار رابعہ بصری

                     تیرے فسانے کا عنوان عصمت مریم

                   نہ دیکھ رشک سے تہذیب کی نمائش کو

                   کہ سارے پهول یہ کاغذ کے ہے خدا کی قسم

                     وہی ہے راہ تیرے عزم و شوق کی منزل

                     جہاں ہوں عائشہ و فاطمہ کے نقش قدم


والدین کو چاہیے کہ ان نازک کلیوں کی گلستان حیات کو صحابیات کی حیات سے واقف کیا جائے تاکہ بچیوں میں بااختیاری اور باشعوری جیسی صلاحیتوں کا فروغ ہو۔لڑکیوں کی تربیت اس طرح کی جاۓ کہ وہ خوبصورت کی بجائے خوب سیرت ہو، اسے نیکی اور اخلاق جیسے قیمتی زیور سے آراستہ کیا جاۓ۔

                  تیری ہر چال سیدهی ہو تیراہر ڈهنگ پیارا ہو


                                   محبت تیرا مسلک ہو

                                  اطاعت تیرا شیوہ ہو

                                 کہ گهر بهر میں اجالا ہو

                                 تیرے پیش نظر ہر دم

                                   حیات پاک زہرا ہو


ایک لڑکی اسی وقت بااختیار شخصیت کی حامل ہوسکتی جب اسکی تربیت بنا کسی فرق کے کی جاۓ۔ لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کے ساتھ یکساں رویہ رکھا جائے۔کسی ایک سے زیادہ لاڈ و پیار کرنا جس سے دوسرے بچوں کو احساس کمتری محسوس ہو منع ہے۔ اسی طرح جب بچوں کو کسی قسم کا تحفہ دیا جاۓ تو برابر ضروری ہے۔ اسی طرح صنف نازک کی تربیت کے لیے ماں باپ کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کی شخصیت میں نکھار آۓ، لڑکی باشعور اور با اختیار ہو اس کے لئے والدین کو چند خاص نکات پر توجہ دینا بے حد ضروری ہے۔


جیسے لڑکیوں کی مہارتوں اور صلاحیتوں کو بچپن ہی سے سراہا جاۓ اور انھیں آگے بڑھنے کی جانب مائل کیا جائے تاکہ انھیں ظاہری اور باطنی دونوں قسم کا اعتماد حاصل ہو۔ اسی طرح بعض گھرانوں میں اکثر یہ نظر آتا ہے کہ بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے الگ قوانین و ضوابط ترتیب دیے جاتے ہیں۔جیسے بچپن میں اگر بیٹے شرارت کرے تو انھیں ڈانٹا نہیں جاتا، لیکن جب یہی شرارت لڑکیاں کرے تو انھیں روک ٹوک کیں جاتی ہے۔ اگر والدین چاہتے ہے کہ ان کی بچیاں بااختیار اور پراعتماد ہو تو والدین کو چاہیے کہ یکساں قوانین ترتیب دیں


اسی طرح بچیوں کی تعلیم کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔تعلیم حاصل کرنا یہ بیٹے کے ساتھ بیٹی کا بھی بنیادی حق ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ "جب ایک لڑکا تعلیم حاصل کرے تو ایک فرد ترقی کرتا ہے لیکن جب ایک لڑکی تعلیم حاصل کرے تو پورا خاندان ترقی کرتا ہے."


                        تعلیم عورتوں کو دینی ضرور ہے

                     لڑکی جو بے پڑھی ہو تو وہ بے شعور ہے


ایک پڑھی لکھی لڑکی ایک عام لڑکی کے مقابلے زیادہ پر اعتماد اور باشعور ہونگی۔ اسلام میں بھی تعلیم نسواں کو اہمیت دی گئ ہے۔ کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کرنے میں اس قوم کی خواتین کا اہم کردار ہوتا ہے۔بچیوں کو تعلیم دی جاۓ لیکن ملحوظ رہے کہ انھیں آزاد نہ چھوڑیں کہ وہ نوجوانی کے نشہ میں غلط راہ اختیار کرلیں جس پر پچھتاوا کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہو، اور جس سے والدین اور بیٹی دونوں کی دنیا اور آخرت کی زندگی میں ناکام ہوجائے۔تعلیم حاصل کرکے لڑکی گھریلو زندگی اور خاندانی زندگی کو حقیر سمجھنے لگے تو ایسی تعلیم بے فائدہ ہے اس کے مقابلے اگر سماجی اور خاندانی تعمیر اور حالات کے لحاظ سے بہتر ہو تو حقیقت میں فائدہ مند ہوگی۔

                     تعلیم لڑکیوں کو ضروری توہے مگر


                       خاتون خانہ ہو صبا کی پری نہ ہو

ساتھ ہی لڑکیوں کو اچھی صفات سے مزین کیا جائے۔تاکہ لڑکی اپنے مقصد وجود تک رسائی حاصل کریں اور ایک باکمال اور کامیاب شخصیت کی حامل ہو۔ انھیں مومنہ صفات سے روشناس کرایا جائے۔ یہ سب سے اہم خوبی ہے۔ انھیں تقوی اور پرہیزگاری سکھائی جائے۔ اس کے علاوہ نیک اور صالح بنایا جائے، یہ لڑکی کی سب سے بڑی خوبی ہے اس صفت  کو حدیث میں اہم مقام دیا گیا۔ بلکہ رشتے کے لئے بھی اسی کو اولیت دی گئ۔


حضرت ابوھریرہ ؓسے روایت ہے رسولﷺنے فرمایا کہ: تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی ( یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی )۔(صحیح بخاری 5090)


جس طرح موتیوں کی مالا میں خوبصورتی اور زیبائش کے لئے انھیں مختلف جواہرات سے مزین کیا جاتا ہے تاکہ وہ پرکشش ہو اسی طرح والدین کو چاہیے کہ وہ صنف نازک میں بااخلاق، اطاعت گزار فرمانبردار، گناہوں سے بچنا، اللہ سے ڈرنے والی، عبادت گزار، پردہ کا اہتمام کرنے والی، عفیف و پاکدامن، سیدھی سادی، حقوق و فرائض کو ادا کرنے والی، شیریں گفتار، نظروں کی حفاظت کرنے والی، جیسے جواہرات سے مزین کیا جائے جن سے ان کا حوصلہ بلند ہو ، جن سے ان کی صبح تازہ ہو ، جن سے ان کی شامیں رنگین ہو یعنی ان قیمتی ہار(صنف نازک)کی قیمتی لڑیوں (ضمیر اور خودی ) کو چار چاند لگے۔جن سے ان کی شخصیت پراعتمادی،باشعوری اور بااختیار بنے اور والدین کے لئے حصول جنت ہو۔


                         گر تم سراپا حیاء و ایمان ہو

                       گویا یاقوت زمرد مرجان ہو


   13
6 Comments

Maria akram khan

28-Aug-2022 11:46 PM

MASHA ALLAH ❤️ umdah tehreer hai ❤️❤️

Reply

Alka jain

23-Aug-2022 09:01 PM

👏👌🙏🏻

Reply

Simran Bhagat

23-Aug-2022 08:43 PM

👍👍👍👍

Reply